Saturday, 21 March 2020

Assalam o Alaikum Warahmatulla e Wabaakatuhu By Saira Ghaffar Short Online Urdu Story



Assalam o Alaikum Warahmatulla e Wabaakatuhu By Saira Ghaffar Short Online Urdu Story 

السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
(سائرہ غفار)

"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"
اجنبی شخص کے سلام کرنے پر ڈیوڈ نے سر ہلایا۔

وہ اجنبی شخص مسکراتا ہوا چل دیا اور ڈیوڈ دیگر لوگوں میں مصروف ہوگیا۔ اس نے سرے سے اس اجنبی شخص کا نوٹس ہی نہیں لیا۔

اگلے روز ڈیوڈ نے اپنا لیکچر ختم کیا تو وہی شخص مسکراتا ہوا آگے آیا:"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔
ڈیوڈ نے مصافحہ کر کے سر ہلایا۔
وہ اجنبی شخص مسکراتا ہوا وہاں سے چل دیا۔ ڈیوڈ نے کوئی توجہ نہیں دی۔

تیسرے دن ڈیوڈ کے لیکچر کا موضوع تھا "یسوع مسیح کے جانثار حواری"۔ ڈیوڈ لیکچر ختم کر کے ہال سے باہر نکلا ہی تھا کہ اجنبی شخص نے مسکراتے ہوئے مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا:"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔

ڈیوڈ نے ہاتھ تھام کر اسے غور سے دیکھا۔ وہ ہاتھ ملا کر اپنے رستے ہولیا۔ آج ڈیوڈ نے اسے دور جاتے ہوئے بڑے غور سے دیکھاتھا۔

اگلے روز ڈیوڈ کے ساتھ سامعین کا سوال جواب کا دن تھا۔ لوگ اس سے مختلف سوال کررہے تھے اور وہ ان کے تسلی بخش جواب دے رہاتھا۔ اس کی معلومات کا خزانہ وسیع تھا اور اندازِ بیان فصیح و بلیغ تھا۔ لوگ انہماک سے سن رہے تھے۔ اچانک سامعین میں سے وہی اجنبی شخص اٹھ کھڑا ہوا اور ڈیوڈ سے مخاطب ہو کر بولا:"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔ ڈیوڈ نے اسے غور سے دیکھا وہ اسے پہچان چکا تھا۔ سبھی کی نظریں اس اجنبی انسان پہ ٹکی ہوئی تھیں۔ اور وہ سب سے بے پرواہ ہال کے خارجی دروازے کی طرف بڑھ رہاتھا۔ ڈیوڈ کے ساتھ ساتھ باقی سب لوگ بھی اسے تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک ڈیوڈ نے کہا:"رک جائو"۔

وہ رک گیا پلٹ کر ڈیوڈ کو دیکھا۔ اس کے چہرے پہ بڑی سادہ اور معصوم سی مسکراہٹ تھی۔ ڈیوڈ نے پوچھا:"آپ نے اپنا سوال نہیں پوچھا؟آپ شاید سوال کرنا بھول گئے ہیں"۔

"میں تو کئی دنوں سے آپ سے سوال کر رہاہوں مگر آپ جواب ہی نہیں دیتے"۔ اجنبی کے چہرے پہ ہنوز مسکراہٹ قائم تھی۔

ڈیوڈ نے سکون سے کہا:"اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو براہِ کرم آپ اپنا سوال دہرادیجیئے۔ میں شاید آپ کا سوال سمجھ نہیں پایا ہوں گا اس لئے جواب نہیں دے سکا۔ آپ دہرائیے میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل جائے"۔

ڈیوڈ کی بات سن کر اجنبی کی مسکراہٹ گہری ہوگئی:"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔

چند لمحے ہال پر سناٹا طاری رہا۔
ڈیوڈ نے پھر تحمل سے کہا:"براہِ کرم اپنا سوال کیجئیے"۔

سارے ہال کو جیسے سانپ سونگھ کیا تھا۔ اجنبی نے مسکراتے ہوئے کہا:"آپ نہیں سمجھیں گے"۔
ڈیوڈ اسے ہال کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔ انتظامیہ نے سوال جواب کے سیشن کو اگلے دن بھی جاری رکھنے کا اعلان کر کے محفل برخاست کردی۔ ڈیوڈ جتنا سوچتا اتنا ہی الجھ کر رہ جاتا۔ اسے بالکل سمجھ نہیں آرہاتھا کہ آخر وہ اجنبی انسان کیا پوچھنا چاہتا تھا اور وہ کیوں بار بار ایک ہی جملہ کی گردان ہانکتا رہتا تھا۔

اگلے دن سوال جواب کے دن کا آغاز ہوا تو ڈیوڈ کو لاشعوری طور پر اس اجنبی انسان کا انتظار تھا پھر رفتہ رفتہ وہ جواب دینے میں اتنا منہمک ہوا کہ اجنبی کا خیال ا س کے ذہن سے محو ہوگیا۔ ابھی ڈیوڈ ایک سوال کا تسلی بخش جواب دے کر فارغ ہوا ہی تھا کہ اچانک وہ اجنبی سامعین میں سے اٹھ کھڑا ہوا اور مسکراتے ہوئے بولا:"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔
ڈیوڈ چند لمحے اسے تحمل سے دیکھتا رہا مگر اجنبی خاموشی سے کھڑا مسکراتا رہا۔
"کیا یہی آپ کا سوال ہے؟"
ڈیوڈ نے اچانک سے پوچھا تو اجنبی کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ گئی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا:"شکر الحمد للہ! آج آپ نے میرا سوال سمجھ لیا"۔
ڈیوڈ تذبذب کے عالم میں کھڑا ہوا ۔ اجنبی نے مسکرا کر کہا:"مجھے امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے"۔

ہال پر سناٹا طاری تھا۔ ڈیوڈ کی نگاہیں اس پہ ٹکی ہوئی تھیں:"اس سوال سے آپ کی منشاء کیا ہے آخر؟ میں نے آپ کے متعلق مکمل معلومات حاصل کی ہیں مگر میں اس سوال کی وجہ تسمیہ جاننے سے قاصر رہاہوں"۔

"اس میں الجھنے کی قطعاً کوئی بات نہیں ہے بس مجھے میرے سیدھے سادے سوال کا جواب دے دیجئیے۔ پھر آپ اپنے رستے اور میں اپنے رستے"۔
اجنبی مسکرایا۔ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کی چمک کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔ ڈیوڈ چند لمحے اسے دیکھتا رہا جیسے فیصلہ کرنے سے پہلے انسان اس کے غلط ہونے کے متعلق سوچتا ہے۔
اجنبی شخص مسکرایا اور سر جھٹک کر بولا:"آپ آج بھی مجھے خالی ہاتھ لوٹا رہے ہیں"۔ وہ پلٹنے لگا تو ڈیوڈ نے اسے پکارا:"ٹہرو"۔
اجنبی نے رک کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
ڈیوڈ نے بہت تحمل سے کہا:"وعلیکم السلام!"۔

اجنبی مسکرایا پھر ممنونیت سے بولا:"آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں مگر یہ جواب ادھورا ہے۔ میں کل پھر آئوں گا آپ سے مکمل جواب سننے کے لئے"۔

ڈیوڈ اسے جاتا دیکھتا رہا وہ خود میں عجیب سی سنسناہٹ محسوس کررہاتھا۔ باقی کے سوال جواب کے دوران بھی اس کا دماغ اس اجنبی کی باتوں میں ہی اٹکا رہا۔

اگلے دن ڈیوڈ کو واپس جانا تھا۔ وہ پیکنگ کرنے پھر ملنے ملانے میں بے حس مصروف تھا۔ اس لئے اجنبی کا خیال اسے چھو کر بھی نہیں گزرا۔ ائیر پورٹ پر اپنے احباب سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے اچانک اس نے اپنے عقب سے وہی مانوس سی مسکراتی آواز سنی:"السلام اعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔

ڈیوڈ کے چہرے پر بھی بے ساختہ مسکراہٹ ابھر آئی۔ اس نے پلٹ کر اجنبی کو دیکھا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا جسے اجنبی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر دھیرے سے دبایا۔ ڈیوڈ کے منہ سے بے اختیار نکلا:"وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔
اجنبی کی مسکراہٹ گہری ہو گئ:"شکر الحمد للہ آج آپ نے مجھے مکمل جواب دے دیا۔ اب مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں"۔

ڈیوڈ اسے جاتا دیکھا رہا۔ وہ خود حیران تھا کہ مکمل جواب اس کے منہ سے کیسے نکل گیا۔ اس نے اپنے قدم ڈیپارچر لائونج کی طرف بڑھادئیے۔ اسے کہیں دور سلامتی کی روشنی محسوس ہورہی تھی اور وہ جلد از جلد اب اس روشنی کو پالینے کے لئے گھر جانا چاہتا تھا۔ تاکہ یہی سوال وہ دہرا سکے کسی اور ڈیوڈ سے جواب حاصل کرنے کے لئے۔

اس کے لبوں پہ ایک آسودہ مسکراہٹ آکر ٹہر ئی اور اس نے اپنا سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔

(ختم شد)


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Zama Janaan by Tamana Noor Complete novel

   Zama Janaan by Tamana Noor Complete novel “کیوں؟…کیوں کیا یہ سب؟میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟میرے معصوم بچے نے تمہارا ایسا کیا نقصان کیا ہے...