سائے شجر
از قلم: ماریہ اکرم مہر
"امی میں نے نہیں جانا کل سے کالج۔"کالج بیگ صوفے پر پٹختے بھرپور غصے سے ک ہا۔
"اب کیا ہو گیا بیٹا؟"آمنہ بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھاتے اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کے ماتھے پہ آ یا پیسنا پونچھتے پوچھا۔
"امی آ پ کو پتا ہے وہ جو میرے کالج والا روڈ ہے ناں وہاں پچھلے کئی دنوں سے بارش کا پانی جمع ہے مجھے وہاں سے گزرتے ہوئے بہت ڈرلگتا ہے مجھے ایسا لگتا جیسے فٹ پاتھ پہ چلتے ہوئے میرا ذرا سا پاؤ پھسلے گا اور میں اس گندے پانی میں گر جاؤ گی اور وہاں موجود تمام لوگ مجھ پر ہنسے گے۔"مرحہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ جس پہ آمنہ بیگم نے تاسف سے اسے دیکھا۔یہ سب پچھلے ایک سال سے ہی چلا آ رہا تھا وہ معمولی سے معمولی بات پہ کالج نہ جانے کی بات کرتی وجہ یہ تھی کہ دو سال قبل اسکے والد اور اکلوتا بھائی ایک حادثے میں جان بحق ہوگئے تھے جس کا اسکے ذہہن پہ کافی برا اثر پڑا تھا۔پر اعتماد تو وہ پہلے بھی اتنی نہیں تھی مگر اب تو مکمل طور پر عدم تحفظ کا شکار ہو کر رہ گئی تھی۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی ایک عجیب سا خوف اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا۔اپنی طرف لوگوں کی اٹھتی نگاہیں اسے عدم تحفظ سے دو چار کرتی تھیں۔
"کالج نہیں جاؤ گی!یہ تو کوئی حل نہیں۔دنیا والوں کا سامنا کرنا سیکھو بیٹا آ خر تم جیسی اور لڑکیاں بھی گزرتی ہو نگی وہاں سے۔"آ منہ بیگم نے اسے سمجھا نےکی سعی کی۔
"امی مجھ سے نہیں ہو تا یہ سب بس میں نے کہ دیا جب تک وہ روڈ ٹھیک نہیں ہو جاتا میں کالج نہیں جاؤ نگ۔"وہ کہنے کے ساتھ ہی اپنا بیگ اٹھاتی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔جبکہ آ منہ بیگم آزردہ سی بیٹھی رہیں پھر کچھ سوچ کر اپنے موبائل فون پہ ایک شناسا نمبر ملایا۔
اگلی صبح وہ اپنے کالج والے اوقات میں ہی اٹھی مگر کالج جانے کے ارادے سے نہیں وہ فریش ہو کر جوں ہی لاونج میں آئی تو دروازے پہ ہوتی دستک نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔آمنہ بیگم اس وقت کچن میں مصروف تھیں تبھی اسے خود جا کر دروازا کھولنا پڑا دروازے پہ اسکی کالج کی واحد دوست رحاب تھی۔جسے دیکھ کر اسے کچھ حیرانی ہوئی۔
"تم یہاں کیسے؟"اس نے جھٹ سوال کیا۔
"توبہ یار اندر بھی آنے دو گی نہیں کہ نہیں اور میں یونیفارم ہوں تو ظاہر ہے تمھارے ساتھ کالج ہی جاؤں گی۔"وہ کہنےکہ ساتھ ہی گھر کے اندر داخل ہو گی۔اسے کل آ منہ بیگم نے ہی فون کر کے مرحہ کے کالج نہ جانے والی بات تفصیلی بتائی تھی۔وہ دونوں ہی گورمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھیں اور اتفاقاً دونوں کے گھر بھی کالج کے بالکل قریب ہی تھے۔اسی لیے اس نے آ منہ بیگم کی بات سن کر یہی طے کیا کہ وہ اب سے مرحہ کے ساتھ ہی کالج جایا کرے گی کیونکہ دونوں کے امتحانات ہو نے والے تھے ایسے میں مرحہ کا کالج سے ناغہ بلکل ٹھیک نہیں تھا اسی لیے رحاب نے یہی حل نکالا وہ جانتی تھی کہ یہ اس مسلئے کا مستقل حل نہیں ہے مگر فی الوقت اسے یہی ٹھیک لگا۔
"لیکن میں تو آج کالج نہیں جانا چاہتی۔"مرحہ زرہ اداس سی ہوئی۔
"کیا مطلب نہیں جانا چاہتی میں یہاں تمھارے ساتھ کالج جانے کے لیے آئی ہوں اور تم کہہ رہی ہو کہ تمھیں نہیں جانا تمھارے پاس دس منٹ ہیں جلدی سے تیار ہو کر آجاؤ۔"اسکے نظر چرا کر کہنے پر رحاب نے اسے ڈپٹا جس پر وہ چار و ناچار تیار ہو کر نیچے آ گئی۔آمنہ بیگم بھی کچن سے نکل آ ہیں رحاب نے انہیں سلام کیا جس پہ انہوں نے بھی اسے سلامتی کی دعا دی۔
"اچھا امی خدا حافظ میں جا رہی ہوں "وہ بیگ کندھے پر لیتی بولی۔
"ہاں لیکن ناشتہ تو کر لیتی۔"آ منہ بیگم نے اسے روکنا چاہا۔
"امی کالج میں ہی کچھ کھا لوں گی۔"بنا مڑے ہی اس نے جواب دیا۔جبکہ انہوں نے تشکر بھری نگاہوں سے دیکھا۔مگر کیا یہ مستقل حل ہے؟ان کے دل میں پھر سے یہی سوال آیا۔
وہ دونوں گلی سے نکلتے ہوئے مین روڈ پر آ گئیں۔مرحہ کے کہنے کے مطابق واقع وہ روڈ بہت خراب تھا مگر فٹ پاتھ پہ چلتے ہوئے اسے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا جس خطرے سے مرحہ دو چار تھی۔رحاب کو اس سمے اس معصوم سی لڑکی پہ بہت ترس آیا وہ اسکے عدم تحفظ کی اصل وجہ جانتی تھی اسی لیے اسکا نرمی سے پاتھ تھام کر چلنے لگی۔بیشک مخلص دوست آپکی زندگی میں سایہ بننے والے بادلوں کی طرح ہوتے ہیں جو نہ آپکی منزل کا سفر کم کر سکتے نہ ہی ختم مگر یہ کڑی دھوپ کی جگہ اپنا سایہ بنا کر آپ کی منزل کا سفر کسی حد تک آسان ضرور بنا دیتے ہیں یہ عمر بھر آپ کے ساتھ نہیں رہتے مگر اپنی بہت خوبصورت سی یادیں ضرور ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
کالج کے گیٹ پر پہنچ کر رحاب نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنی کلاس کی جانب بڑھ گئی۔مرحہ بھی چلتے ہوئے اپنی کلاس کی جانب بڑھنے لگی مگر چلتے ہوئے ایک لمحے کو اسکے قدم ایک نسوانی آواز پہ رکے یہ آواز تو وہ ہزاروں میں پہنچان سکتی تھی مگر یہ کییسے ممکن تھا۔یہ آواز تو اسکے بھائی روحان جیسی تھی۔جس کی وفات دو سال پہلے ہو چکی تھی تو پھر یہ کیسے ممکن تھا یہی سوچتے اسے آواز کے تعاقب میں کوریڈور میں قدم رکھا جہاں کچھ لڑکے کھڑے آپس میں باتیں کرہے تھے۔اسے لگا اس پل کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسی گندے روڈ پر پھینک دیا ہے وہاں موجود تمام لڑکے اس پر ہنس رہے تھے یہاں تک کہ وہ لڑکا بھی مونچھوں کو تاؤ دیتا اس پر ہنس رہا تھا جو اسے اپنے بھائی جیسا لگا تھا اس کے قدم خود بہ خود پیچھے کو ہوئے۔یہ آواز انہیں میں سے کسی ایک کی تھی اس نے لاشعوری طور پر قدم آگے بڑھائے آواز اب بھی آرہی تھی "سنیں" مرحہ کے پکارنے پر لڑکے نے مڑ کے اسے دیکھا۔مرحہ کو شدید جھٹکا لگا اسکی صرف آواز ہی نہیں اسکی شکل وصورت بھی ہوباہو روحان کی طرح تھی مگر نگاہیں تو بلکل اس جیسی نہ تھی۔اسکے بھائی کی نگاہوں میں تو اسکے لیے تحفظ ہی تھا مگر اس لڑ کے کی نگاہیں۔ان میں تو صرف ہوس ہی بھری ہوئی تھی پھر بھلا وہ کیسے اسکا بھائی جیسا ہو سکتا تھا۔
تو وہ کیا بجا ہی عدم تحفظ کا شکار تھی، کیا ہمارا معاشرہ ہمیں واقع وہ تحفظ فراہم نہیں کرسکتا جو ایک باپ اور بھائی کرسکتا ہے؟
***************
No comments:
Post a Comment